المغرب
مراکشﻕﺎﺒﺳ ﻭ ﻕﺎﯿﺳ ﺎﮐ مراکش
مراکش (عربی: المغرب، آمازیغی: ⵍⵎⵖⵔⵉⴱ، سرکاری طور پر"ⵜⴰⴳⵍⴷⵉⵜ ⵏ ⵍⵎⵖⵔⵉⴱ"، "المملكة المغربية" )، شمالی افریقہ کا ایک ملک ہے۔ بحر اوقیانوس کے ساتھ طویل ساحلی پٹی پر واقع اس ملک کی سرحد آبنائے جبرالٹر پر جاکر بحیرہ روم میں جاملتی ہیں۔ مشرق میں مراکش کی سرحد الجزائر، شمال میں بحیرہ روم اور اسپین سے منسلک آبی سرحد اور مغرب میں بحر اوقیانوس موجود ہے۔ جنوب میں اس کی سرحدیں متنازع ہیں۔ مراکش مغربی صحارا پر ملکیت کا دعویدار ہے، اور 1975ء سے اس کے بیشتر رقبے کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔
مراکش افریقہ کا واحد ملک ہے جو افریقی یونین کا رکن نہیں البتہ وہ عظیم مغرب یونین، موتمر عالم اسلامی، عرب لیگ، بحیرہ روم ڈائیلاگ گروپ اور گروپ 77 کا رکن ہے اور امریکا کا ایک اہم غیر نیٹو اتحادی ہے۔
ﺪﯾﺰﻣ ﮟﯿﻣ ﮮﺭﺎﺑ ﺱﺍ مراکش
- ﻡﺎﻧ ﯽﺋﺎﺑﺁ المغرب
- ﮈﻮﮐ ﮓﻨﻟﺎﮐ +212
- ﻦﯿﻣﻭﮈ ﭧﯿﻧﺮﭩﻧﺍ .ma
- Mains voltage 220V/50Hz
- Democracy index 5.04
- ﯼﺩﺎﺑﺁ 37076584
- ﮧﺒﻗﺭ 710850
- ﮉﯿﺋﺎﺳ ﮓﻧﻮﯿﺋﺍﺭﮈ right
- آيت بن حدّو کا شہر فصیل کے اندر قائم ہے
جدید مراکش کا علاقہ 8 ہزار سال قبل مسیح میں آباد ہوا۔ قدیم دور میں یہ ماریطانیہ کہلا تا تھا۔ واضح رہے کہ ماریطانیہ نام کا ملک بھی مراکش کے قریب ہی واقع ہے۔ شمالی افریقہ اور مراکش عظیم رومی سلطنت کا حصہ رہے ہیں اور رومی سلطنت میں مراکش کا علاقہ Mauretania Tingitana کہلاتا تھا۔ 5 ویں صدی میں رومی سلطنت کے زوال کے بعد وینڈلز، وزیگوتھ اور بازنطینی یونانیوں نے اس سرزمین پر قبضہ کیا۔ اس دور میں بھی جدید مراکش کے پہاڑی علاقے آزاد رہے جن میں بربر نسل کے لوگ رہتے تھے۔
ظہور اسلام کے بعد 7 ویں صدی میں عرب افواج شمالی افریقہ کو فتح کرتے ہوئے مراکش پہنچیں۔ 670ء میں خلافت امویہ کا جرنیل عقبہ بن نافع شمالی افریقہ کی ساحلی پٹی میں فتوحات حاصل کرتے کرتے مراکش پہنچا اور 683ء تک جدید مراکش کا تقریباً تمام علاقہ فتح کر لیا۔
حسن ثانی مسجد، کاسابلانکااس فتح کے بعد مراکش میں اسلامی ثقافت اپنے عروج پر پہنچی اور مقامی بربر آبادی کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا۔
...مزید پڑھیے۔آيت بن حدّو کا شہر فصیل کے اندر قائم ہےجدید مراکش کا علاقہ 8 ہزار سال قبل مسیح میں آباد ہوا۔ قدیم دور میں یہ ماریطانیہ کہلا تا تھا۔ واضح رہے کہ ماریطانیہ نام کا ملک بھی مراکش کے قریب ہی واقع ہے۔ شمالی افریقہ اور مراکش عظیم رومی سلطنت کا حصہ رہے ہیں اور رومی سلطنت میں مراکش کا علاقہ Mauretania Tingitana کہلاتا تھا۔ 5 ویں صدی میں رومی سلطنت کے زوال کے بعد وینڈلز، وزیگوتھ اور بازنطینی یونانیوں نے اس سرزمین پر قبضہ کیا۔ اس دور میں بھی جدید مراکش کے پہاڑی علاقے آزاد رہے جن میں بربر نسل کے لوگ رہتے تھے۔
ظہور اسلام کے بعد 7 ویں صدی میں عرب افواج شمالی افریقہ کو فتح کرتے ہوئے مراکش پہنچیں۔ 670ء میں خلافت امویہ کا جرنیل عقبہ بن نافع شمالی افریقہ کی ساحلی پٹی میں فتوحات حاصل کرتے کرتے مراکش پہنچا اور 683ء تک جدید مراکش کا تقریباً تمام علاقہ فتح کر لیا۔
حسن ثانی مسجد، کاسابلانکااس فتح کے بعد مراکش میں اسلامی ثقافت اپنے عروج پر پہنچی اور مقامی بربر آبادی کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا۔
بنو امیہ کے زوال کے بعد خلافت عباسیہ کا دور آیا جس میں مراکش مرکزی حکومت کی دسترس سے نکل گیا اور ادریس بن عبداللہ نے ادریسی سلطنت قائم کردی۔ ادریسیوں نے فاس کو اپنا دارالحکومت قرار دیا اور مراکش کو تعلیم و ہنر کا مرکز بنادیا۔
مراکش بربروں کی دو بادشاہتوں کے درمیان میں اپنے عروج پر پہنچ گیا جو ادریسیوں کے بعد قائم ہوئیں۔ پہلے مرابطین اور بعد ازاں موحدین کے دور میں مراکش تمام شمال مغربی افریقہ اور اندلس کے بیشتر حصے کا حکمران بن گیا۔ اسلامی اسپین میں اشبیلیہ اور غرناطہ جیسے شہر یورپ میں علم و ہنر، سائنس، ریاضی، علم فلکیات، جغرافیہ اور طب کے مراکز تھے۔
فرڈینینڈ دوم آراغونی اور ملکہ آئزابیلا کے ہاتھوں سقوط غرناطہکے بعد اسپین میں مسلم اقتدار کا سورج غروب ہو گیا اور عیسائیوں نے مسلمانوں اور یہودیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑدیئے۔ عیسائیوں کے مظالم سے تنگ آکر اسپین کے مسلمان اور یہودی مراکش آ گئے۔ عیسائیوں نے مسلم ثقافت کی ہر نشانی کو ختم کرنے کے لیے اندلس کا ہر کتب خانہ تباہ کر دیا جس کے باعث ہزاروں انمول کتابیں ضائع ہوگئیں۔